
My Best Friend
Akmal is my best friend, cheerful, good-looking, and from a well-off family. He is a bright young man. We often sit together in the evenings, chatting and exchanging thoughts, starting from politics and drifting into religion, social issues, and personal life.
We truly get along, or you could say, our bond is as thick as thieves.
میرا بہترین دوست
اکمل میرا بہترین دوست ہے، خوش مزاج، خوش شکل، کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک ہونہار نوجوان، ہم اکثر شام میں ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، گپ شپ ہوتی ہے، تبادلہ خیال ہوتا ہے، سیاست سے شروع ہو کر مذہب، سوشل اور نجی زندگی وغیرہ۔۔۔
یوں ہماری خوب جمتی ہے یا یہ کہیے کہ گاڑھے میں چھنتی ہے۔

The Sudden News
Yesterday, I called him as usual, but his father picked up the phone with a sorrowful voice and said that Akmal was unwell and admitted to Patel Hospital.
I felt the ground slip beneath my feet. Just a few days ago, we were enjoying fast food together, and now suddenly this had happened.
I put aside all my engagements and decided to visit my friend immediately.
اچانک خبر
گزشتہ روز بھی میں نے اسے یونہی کال کی تو اس کے والد محترم نے فون اٹھایا اور مغموم سی آواز میں کہا کہ اکمل کی طبیعت ناساز ہے، وہ پٹیل ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔
میرے تو پیروں تلے زمین نکل گئی، چند روز پہلے تو ہم ساتھ بیٹھے فاسٹ فوڈ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اب اچانک یہ کیا ہوا۔۔۔۔؟
خیر اپنی تمام مصروفیات ترک کیں اور سوئے یار جانے کا عزم مصمم کر لیا۔

The Journey Begins
I rushed out to start the car, but the “lady” refused to start. I tried everything, but she would not budge. Turned out, the battery was dead. I stood in the scorching sun for half an hour waiting for a mechanic. He fixed the issue, took a crisp green note, and left.
Finally, I moved ahead, turned on the AC, and as soon as the car sped out of the street, I took a deep breath of relief.
سفر کی شروعات
بھاگم بھاگم گاڑی نکالی مگر لیکن محترمہ سٹارٹ ہو کر نہ دیں، سارے جتن کر ڈالے مگر ٹس سے مس نہ ہوئی معلوم ہوا کہ بیٹری بیٹھ گئی ہے، تپتی دھوپ میں آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر مکینک کو بلایا، اس نے کام کیا اور ایک ہرا بھرا کرکرا نوٹ لے کر چلتا بنا۔
خیر ہم آگے بڑھے، گاڑی میں بیٹھ کر اے سی آن کیا اور جیسے ہی گلی سے نکل کر گاڑی فراٹے بھرنے لگی تو سکون کا سانس آیا۔

Obstacles on the Road
I reached the main road, but another challenge stood before me. The road looked like a boiling, roaring stream of metal. The traffic was jammed so badly that there wasn’t even space for a pin to drop. Cars stood as if parked in a massive queue.
Meanwhile, a young boy came recklessly rushing through and collided with two cars at once. The drivers, already frustrated, jumped out and started hitting the poor boy. True, their damage was serious, but beating him could not undo it. Some people intervened and broke up the fight.
راستے کی رکاوٹیں
اب ہم مین روڈ پر پہنچ چکے تھے لیکن یہاں ایک اور مشکل منہ پھاڑے ہمارے سامنے کھڑی تھی، ہمیں لگا ہمارا روڈ ایک شور مچاتی، ابلتی سڑک میں بدل چکا ہے، ٹریفک بری طرح جام کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں، گاڑیاں گویاں پارکنگ میں لگی تھیں۔
اسی دوران ایک نو عمر لڑکا بھائی کو بری طرح بھگاتے ہوئے اس فوج ظفر موج میں گھس گیا اور بیک وقت دو کاروں سے جا ٹکرایا، کار والے پہلے سے بھرے بیٹھے تھے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نکلتے ہی اس جوان پر پل پڑے، واقعی ان کا نقصان زیادہ ہوا تھا مگر اسے مارنے سے وہ واپس نہیں ہو سکتا تھا، کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر بچ بچاؤ کیا۔

The Arrival of Mr. Dumper
Once the road cleared, I moved forward but suddenly froze. In front of me was a gigantic beast flying through the air.... rushing fast, roaring loudly. Karachi folks will understand what I mean, “Mr. Dumper Sharif.”
If these dumpers only caused traffic jams, that would still be bearable. But they behave as if they are playful rabbits, hopping here and there on the road. The result is always tragic... bloody accidents, public rage, burning vehicles, and chaos everywhere.
Seeing that monster reminded me instantly to recite the travel prayer. Thankfully, I reached my destination safely.
ڈمپر شریف کی اینٹری
خیر راستہ ملا ہم آگے بڑھے کہ اچانک ٹھٹک کر رہ گئے، ہمارے سامنے ڈائناسور جیسی ایک بلا ہوا میں اڑتی ہوئی آرہی تھی، بہت جلدی میں، بہت تیز رفتاری کے ساتھ، چیختے چنگھاڑتے ہوئے، جی ہاں کراچی والے خوب سمجھ گئے ہوں گے "مسٹر ڈمپر شریف"
بات اگر ان ڈمپروں کے ٹریفک جام کرنے تک ہو تو بھی قابل برداشت ہو سکتی ہے، لیکن یہ تو خود کو گویا کسی خرگوش کا ننھا سا بچہ سمجھتے ہیں جو سڑک پر آکر دو چار چھلانگیں مارے گا اور پھدک کر ادھر ادھر ہو جائے گا، نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ پھر خونی حادثات ہوتے ہیں، عوام اشتعال میں آتی ہے، گاڑیاں جلتی ہیں اور بہت کچھ۔۔۔
خیر اسے دیکھ کر ہمیں نقد یہ فائدہ ہوا کہ فوراً سفر کی دعا یاد آگئی، اور ہم بخیر و عافیت اپنی منزل مقصود تک جا پہنچے۔

The Hospital Scene
Hospitals have always felt terrifying to me. The building, the furniture, the staff, even the smell makes me uneasy, as if I cannot breathe. But visiting was necessary. I got the ward information from the reception and walked ahead.
On my way, dozens of scenes awaited me... faces filled with fear, pain, and hopelessness. Someone was anxious for medicine, another exhausted waiting for the doctor. A mother with empty arms and eyes full of tears. A father unable to accept his son’s accident. Patients trembling in pain, attendants rushing around, visitors like me standing silent and sorrowful.
سپتال کا منظر
ہسپتال میرے لیے ہمیشہ سے ایک خوفناک سا تجربہ رہا ہے مجھے یہاں کی بلڈنگ، فرنیچر، اسٹاف اور خوشبو تک سے ایک عجیب سی گھبراہٹ ہوتی ہے، لگتا ہے کہ دم گھٹ رہا ہے، خیر آنا بھی مجبوری ہے، ریسپشن سے وارڈ کی معلومات کر کے آگے بڑھا۔
راستے میں بیسیوں مناظر گویا میرے ہی منتظر تھے وہاں ڈر کی شکلیں تھیں، وہاں درد کی صورتیں تھیں، کوئی دوا کے لیے پریشان، کوئی ڈاکٹر کے انتظار میں ہلکان، ایک ماں جس کی گود خالی اور آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں، ایک باپ جس کا دل جوان بیٹے کے حادثے کو قبول نہیں کر پا رہا تھا، کوئی خود مریض ہے اور تڑپ رہا ہے، کوئی اٹینڈنٹ ہے اور بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے، کوئی میری طرح عیادت کرنے آیا ہے اور غمگین ہے۔

Meeting Akmal
I kept walking until I reached Akmal’s ward and entered his room. He smiled at me in his usual way, but this time that smile had lost its liveliness. It carried pain. He had food poisoning and looked frightened.
As soon as I heard the words “food poisoning,” a spark went off in my mind. Akmal had always been careless about food. In our last meeting, he had insisted on eating fast food and drinking lots of cold drinks.
But this was not the time for preaching. We both sat silently, holding each other’s hands. That silence said everything.... this lively young man sitting still was in itself a big warning and a lesson.
I comforted him, talked a little, and prepared to leave.
ملاقاتِ اکمل
خیر! جتنے لوگ اتنی کہانیاں میں آگے بڑھتا گیا اور اکمل کے وارڈ میں پہنچ کر اس کے روم میں داخل ہوا۔ وہ مجھے دیکھ کر اسی طرح مسکرائے جو اس کا خاص انداز تھا مگر آج اس مسکراہٹ میں وہ زندہ دلی نہ تھی فقط درد چھپا تھا۔ اسے فوڈ پوائزن ہوا تھا۔ اور وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔
جیسے ہی میں نے فوڈ پوائزن کا نام سنا، میرے دماغ میں جھماکا سا ہوا، واقعی اکمل کھانے پینے کے معاملے میں بہت لاپرواہ تھا اور گزشتہ ملاقات میں بھی اس نے اصرار کر کے فاسٹ فوڈ کھایا تھا اور رج کے کول ڈرنک پی تھی۔
خیر یہ موقع نہ تھا کہ میں اس کے سامنے نصیحتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھتا، اب تو ہم دونوں یکساں پریشان تھے۔۔۔ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھے تھے۔۔۔ اور ہماری یہی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی کہ اس چنچل شوخ جوان کا یوں ساکت بیٹھنا ہی اس کے لیے سب سے بڑی تنبیہ اور سزا تھی۔۔۔
اسے تسلی دی، کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کیں۔

The Hospital Dispute
As I walked out, I saw a quarrel at the pharmacy counter. It seemed to be about returning leftover medicines. The patient was poor and wanted to return the unused ones, but the pharmacy staff had objections.
Already burdened by my friend’s condition, I felt my head would explode if I stayed longer. Escaping seemed the wiser option.
ہسپتال کی کشمکش
اس کے بعد میں فارغ ہو چکا تھا لہٰذا واپس ہوا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہسپتال کے کاؤنٹر پر جھگڑا کر رہے تھے، شاید دواؤں کی واپسی کا مسئلہ تھا، مریض غریب آدمی تھا اور استعمال کے بعد بقیہ دوائیں واپس کرنا چاہتا تھا مگر فارمیسی والوں کو اس پہ کچھ اعتراضات تھے، ان کے تحفظات تھے۔
میں دوست کی بیماری سے پہلے ہی بہت بوجھل ہو رہا تھا، اب اگر یہاں رکتا تو میرا دماغ پھٹ جاتا تو بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔

The Rainy Return
But my troubles were not over yet.
As soon as I sat in the car, it started pouring heavily. Within minutes, the roads were flooded. Driving became nearly impossible, and the thought of facing another problem made my soul tremble. But by the grace of God, I reached home safely.
The rain was still falling as if the sky itself was washing away the exhaustion of the day. I collapsed onto my bed, feeling like I had not just traveled distance, but endured the harsh journey of life itself.
واپسی اور بارش
لیکن مشکلات نے ابھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔
گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے روڈ راستے سب جل تھل ہو گئے، گاڑی چلانا دو بھر ہو گیا، اور کسی نئی مشکل کے پیش آنے کے خیال کے ساتھ ہی روح تک کانپ گئی، مگر عافیت رہی، گھر پہنچا، بارش ابھی بھی برس رہی تھی، گویا آسمان بھی سارا دن ہونے والی تھکن کو دھو رہا تھا، گھر پہنچتے ہی بیڈ پر جا گرا، لگا آج صرف فاصلہ طے نہیں کیا بلکہ زندگی کے کئی سخت مراحل گزار کر آرہا ہوں۔

Realization and Gratitude
All the scenes still spun before my eyes... the car breaking down, traffic chaos, road accidents, people fighting, dumpers crushing lives, hospitals full of sorrow, human helplessness, poverty, unhealthy food, the ruined city, and so much more.
Seeing the struggles of others made me realize how blessed I am.
Sitting at home, I thanked my Lord for all His countless blessings and for saving me from such hardships.
The elders were right when they said, “To truly value something, imagine living without it for a while....? Everything will become clear.”
احساس و شکر
تمام مناظر ابھی تک میری نظروں کے سامنے گردش کر رہے تھے، ہنگامی وقت میں گاڑی کا اچانک خراب ہو جانا، ٹریفک کے مسائل، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، روڈ پر ہونے والا حادثہ، لوگوں کی باہم دھینگا مشتی، ڈمپروں کا بے وقت روڈ پر آنا، ایکسیڈنٹ کرنا، لوگوں کو کچل دینا، عوام کا اشتعال، گاڑیاں جلانا، ہسپتال، امراض، لوگوں کی مجبوریاں، غربت، ہمارے کھانوں کی غیر غذائیت، شہر کی تباہ حالی اور بہت کچھ۔۔۔
لوگوں کے مسائل دیکھ کر اپنی زندگی پر بیسیوں دفعہ رشک آیا۔
اب میں گھر میں بیٹھ کر اپنے سوہنے رب کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ اس نے کیسی کیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور کس کس مشکلات سے بچا رکھا ہے۔
بزرگوں کا کہا درست ہے کہ جب کسی چیز کی قدر کا احساس کرنا ہو تو کچھ دیر اس کے نہ ہونے کا تصور کر لیا کرو کہ اس کے بغیر زندگی کیسی ہوگی۔۔۔؟ سب سمجھ آجائے گا۔


