
When My Friend’s Generations Old Factory Reached Its End
Khalil is my college friend. Last month, I met him after a very long time. I know him a little personally as well. Financially, his family is a modest but stable household. In fact, his family has been running a small family factory for three generations.
Unfortunately, we met at a time when that ancestral factory was about to shut down, and he was busy trying to save it.
I looked into my friend's eyes where there was only despair.
"We are shutting down the factory..."
Khalil said without any introduction.
"Electricity bills, gas shortages, and rising inflation have broken our backs."
"What... what will you do now?"
I asked hesitantly.
Khalil looked at me with empty eyes, turned his face away, and said:
"This is the question that has stolen our sleep."
نسلوں پرانی فیکٹری کا آخری سانس لیتے لمحے
خلیل میرا کالج کا دوست ہے۔ پچھلے مہینے ایک طویل مدت بعد اس سے ملاقات ہوئی۔ میں اسے تھوڑا بہت شخصی طور پر بھی جانتا ہوں۔ مالی لحاظ سے اس کا گھرانہ سفید پوش لیکن مستحکم ہے۔ دراصل ان کا خاندان تین پشتوں سے ایک چھوٹا سا فیملی کارخانہ چلا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کا یہ آبائی کارخانہ بند ہونے والا تھا اور وہ اسی کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔
میں نے اپنے دوست کی آنکھوں میں دیکھا جہاں مایوسی ہی مایوسی تھی۔
"ہم یہ کارخانہ بند کر رہے ہیں۔۔۔"
خلیل نے بلا تمہید کہا۔
"بجلی کے بل، گیس کی قلت اور اوپر سے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔"
"اب۔۔۔ اب تم کیا کرو گے۔۔؟"
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
خلیل نے خالی نظروں سے میری طرف دیکھا اور رخ پھیر کر کہا:
"اسی سوال نے ہماری راتوں کی نیند اڑائی ہوئی ہے۔"


One Factory or the Story of a Whole Nation
My friend left. He had to auction off that tiny factory which his forefathers had built with their sweat and blood. But as he left, he threw me into a deep sea of thoughts. I wondered whether this was just the story of one factory or the story of an entire nation.
The truth is that economic decline affects every person in our country in one way or another. Whether rich or poor, urban or rural, everyone gets caught in its flames.
Have you ever noticed that when the economy wavers, the first thing that disappears is employment opportunities?
How many young people earn degrees and then sit at home?
How many laborers wander the streets searching for work and return home empty-handed?
How many shopkeepers are forced to shut down their businesses?
Are these not victims of economic decline?
Of course they are.
But what is the most frightening effect of economic decline?
Is it financial loss?
No.
The most frightening effect is on the human mind.
When a father feels helpless in front of his children,
When a son cannot afford treatment for his elderly parents,
When a student is forced to abandon his education,
These are not just financial problems.
These become psychological wounds.
ایک کارخانہ یا پوری قوم کا المیہ
میرا دوست چلا گیا۔ اسے اپنی یہ ننھی سی فیکٹری نیلام کرنی تھی جسے اس کے باپ دادا نے خون جگر سے سنوارا تھا۔ مگر جاتے جاتے وہ مجھے حیرتوں کے سمندر میں پھینک گیا، جہاں میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہ صرف ایک کارخانے کی کہانی تھی یا پوری قوم کی داستان۔
سچ تو یہ ہے کہ معاشی بدحالی ہماری قوم کے ہر فرد کو کسی نہ کسی طور پر متاثر کرتی ہے۔
امیر ہو یا غریب، شہری ہو یا دیہاتی، ہر کوئی اس کے شعلوں میں جھلستا ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب معیشت ڈگمگاتی ہے تو سب سے پہلے روزگار کے مواقع ختم ہوتے ہیں؟
کتنے نوجوان ڈگری لے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
کتنے مزدور کام کی تلاش میں خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔
کتنے تاجر اپنی دکانیں بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
کیا یہ سب معاشی بدحالی کے شکار نہیں؟
بالکل ہیں۔
مگر معاشی بدحالی کا سب سے خوفناک اثر کیا ہے؟
کیا وہ مالی نقصان ہے؟
نہیں۔
سب سے خوفناک اثر تو انسان کے ذہن پر پڑتا ہے۔
جب ایک باپ اپنے بچوں کے سامنے بے بسی محسوس کرے،
جب ایک بیٹا اپنے بوڑھے والدین کا علاج نہ کرا سکے،
جب ایک طالب علم اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جائے،
تو یہ مالی مسائل نہیں رہتے۔
یہ نفسیاتی زخم بن جاتے ہیں۔


Economic Failure Is Not an Accident
The question arises: Is economic decline a natural disaster?
Does it come suddenly?
No, my friends.
Economic decline is the result of our own weaknesses, wrong policies, and incompetence.
When we stop being productive and become only consumers,
When we stop saving and start wasting,
When we rely on luck instead of hard work,
Then economic collapse is bound to come, and it comes with full force.
But do you know who suffers the most from economic decline?
The poor class.
The rich usually remain relatively unaffected, and even if they are, their savings support them.
The elite does not even feel the shock.
But the poor survive day to day.
If they earn today, they eat today.
If they do not earn, then...
معاشی بدحالی حادثہ نہیں ہوتی
سوال یہ ہے کہ کیا معاشی بدحالی کوئی قدرتی آفت ہے؟
کیا یہ اچانک آتی ہے؟
نہیں دوستو۔
یہ تو ہماری کمزوریوں، غلط پالیسیوں اور نااہلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
جب ہم پیداواری ہونے کے بجائے صرف استعمال کرنے والے بن جائیں،
جب ہم بچانے کے بجائے صرف اڑانے لگیں،
جب ہم محنت کے بجائے قسمت کے بھروسے بیٹھ جائیں،
تو معاشی تباہی تو آئے گی، اور بہت زور سے آئے گی۔
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ معاشی بدحالی کا سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوتا ہے؟
غریب طبقے کو۔
امیر کو تو کم نقصان ہوتا ہے اور جو ہوتا بھی ہے اسے اس کی جمع پونجی سہارا دے دیتی ہے۔
اشرافیہ کو تو کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔
مگر غریب کا تو روز کا روز ہوتا ہے۔
آج کمائے گا تو آج کھائے گا، ورنہ۔۔۔

The Reality Around Us
Let us open our eyes and look around.
The teacher who is forced to give tuitions day and night.
The doctor who is planning to go abroad.
The engineer who has left his profession and become a shopkeeper.
Are these not effects of economic decline?
But can we do something against it?
Of course we can.
The first step is to change our mindset.
We must become productive, not only consumers.
The second step is to demand better policies from our governments.
The third step is to build unity at the national level.
Why do we not understand that when the economy weakens, the nation weakens, and when the nation weakens, every individual weakens? After that, there is no progression, only decline.
So why are we knowingly falling into the dark well of downfall?
ہمارے ارد گرد کی حقیقت
آئیے آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
وہ استاد جو دن رات ٹیوشن پڑھانے پر مجبور ہے۔
وہ ڈاکٹر جو بیرون ملک جانے کا سوچ رہا ہے۔
وہ انجینیئر جو اپنا پیشہ چھوڑ کر دکاندار بن گیا ہے۔
کیا یہ سب معاشی بدحالی کے اثرات نہیں؟
مگر کیا ہم اس کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں؟
ضرور کر سکتے ہیں۔
پہلا قدم یہ کہ ہم اپنی ذہنیت بدلیں۔
ہم پیداواری بنیں، صرف استعمال کرنے والے نہیں۔
دوسرا قدم یہ کہ اپنی حکومتوں سے بہتر پالیسی مانگیں۔
تیسرا قدم یہ کہ ہم قومی سطح پر اتحاد پیدا کریں۔
ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ جب معیشت کمزور ہوتی ہے تو قوم کمزور ہوتی ہے۔
اور جب قوم کمزور ہوتی ہے تو ہر فرد کمزور ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد ترقی نہیں رہتی، صرف زوال رہتا ہے۔
تو پھر ہم کیوں جانتے بوجھتے اس اندھے کنویں میں گر رہے ہیں؟

A Promise to Save What Remains
Let us promise today that we will play our role in improving our nation’s economic condition.
We will become hardworking.
We will become honest.
We will work for the progress of our country.
Because when the foundations of an economy weaken, the people and their spirits weaken with it.
Passion fades away.
Those eaten from the inside by economic hardship can never become a real nation.
Between their life and their death, only one question hangs in the air, the same question I asked my friend Khalil:
"What will you do now?"
And that single sentence is enough to steal their sleep.
آج کا عہد اور کل کی امید
آئیے آج ہی عہد کریں کہ ہم اپنی قوم کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
ہم محنتی بنیں گے۔
دیانت دار بنیں گے۔
اپنی قوم کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔
کیونکہ جب معیشت کی بنیادیں کمزور ہوں تو لوگ اور ان کی روحیں بھی کمزور پڑ جاتی ہیں۔
جذبے ختم ہو جاتے ہیں۔
اور جو لوگ معاشی بیماریوں کا شکار ہو جائیں وہ کبھی بھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔
پھر ان کی زندگی اور موت کے درمیان وہی ایک سوال معلق رہتا ہے جو میں نے اپنے دوست خلیل سے پوچھا تھا:
"اب کیا کرو گے۔۔۔؟"
اور یہی ایک جملہ ان کی راتوں کی نیند حرام کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

ENG VIDEO
URDU VIDEO


